Thursday, January 11, 2018

سوچنے اور سمجھنے کی باتیں

کسی اندوہناک واقعے کا تجزیہ کرنا ایک مشکل عمل ہے لیکن جب بات پھول سے بچوں کے ساتھ درندگی کی ہو تو دل کے ساتھ ساتھ دماغ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ جو معصوم ذرا سی ڈانٹ سے سہم جاتے ہوں وہ ایسی وحشت ناک صورتحال کا سامنا کیسے کر پاتے ہوں گے۔ ایک گمشدہ بچے کے ماں باپ پر نجانے کیا قیامت بیتتی ہوگی اور وہ اپنے پیارے کو دیوانہ وار کہاں کہاں ڈھونڈتے پھرتے ہوں گے۔
قصور واقعہ نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا، ایسی درندگی پر خود کو سنبھالنا آسان نہیں۔ ہر دوسرا شخص قاتل کو موقع پر گولی مارنے، سر عام پھانسی لٹکانے یا ایسی اذیت ناک سزا کا مطالبہ کر رہا ہے کہ کسی اور کو پھر ایسی حرکت کی جرات نہ ہو۔ غصے سے بھرے ہجوم نے تو بسوں، گاڑیوں اور دفتروں کو جلا کر اپنے جذبات کا اظہار بھی کردیا ہے۔
ایسی جذباتی کیفیت قدرتی بات ہے، حکومت وقت کو ملامت کرنا اور دباو ڈالنا بالکل حق بجانب ہے کہ ایسی مجرمانہ لاپروائی کیسی ہوئی، تھوڑے ہی عرصے میں بچوں کے اغواء اور ان سے درندگی کے اتنے واقعات کیسے ہوگئے؟ جہاں مجرموں کا سراغ لگانا چاہیئے، وہیں غفلت برتنے والے قانون کے رکھوالوں کے خلاف بھی سخت کاروائی ہونی چاہیئے۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں اور خاص طور پر اپنے بچوں میں آگہی اور ایسی ضروری معلومات پہنچانے کا بندوبست کرنا چاہیے جس سے وہ ایسی صورتحال کا شکار نہ ہو پائیں۔ اس بارے میں بہت کچھ میڈیا میں آچکا ہے، کافی لوگ سوشل میڈیا پر بھی آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔ تعلیمی نصاب میں جنس کے متعلق معلومات پر بھی بحث چل رہی ہے اور علماء کرام کو مزید کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کی جا رہی ہے۔
یہ سب باتیں بالکل ٹھیک ہیں، ان پر عمل بھی ہونا چاہیے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی اصل مسئلہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے، یہ سب آگ سے بچنے کے طریقے ہیں اس کو بجھانے کے نہیں۔ ہمیں اس حوس اور درندگی کی آگ کی وجوہات جاننا ہونگی جو ایک عام انسان کو ایسی حیوانیت پر اکساتی ہے۔ ایسے واقعات کے روک تھام کے لیے  ہمیں اپنی بیٹیوں سے زیادہ اپنے بیٹوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آخر یہ مجرم اور اس پہلے ہونے والے سیکنڑوں واقعات میں ہمارے ہی بھائی، بیٹے یا قریبی دوست ہی ملوث ہونگے، کہیں دوسرے سیارے کی مخلوق تو نہیں ہیں ایسے لوگ۔ جب ہمارے قریبی لوگ کسی لڑکی کو تنگ کرتے ہیں، گھٹیا اور گندے جملے کستے ہیں، فحش فلمیں دیکھتے ہیں، ننگی گالیاں نکالتے ہیں تو ہم میں سے کتنے ہیں جو ان کو سختی سے منع کرتے ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ایسی سوچ و عمل والا انسان اس سے باز آجائے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھیں کہ کتنے لوگ اپنے بچوں کی ایسی حرکات پر "جوانی میں سب کرتے ہیں" کہہ کر غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بیٹا ہو یا بیٹی، اپنے عمل سے سکھائیں دونوں کو مگر ہاتھ اس کا روکیں جس کا اٹھ رہا ہے۔