Thursday, April 28, 2016

المیہ در المیہ.....


ہمارے معاشرے کی بے حسی اور انتشار کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ایک ہولناک سانحے کو ایک چیلنج اور سبق کے طور پر لینے کی بجائے, ہم مسلسل المیے جنم دے رہے ہیں

ایک المیہ تو وہ جو قصور کے بچوں پر نہ صرف بیت گیا بلکہ زندگی بھر کا روگ بن گیا, لیکن اس کے ساتھ کئی المیے دیکھنے کو ملے, جو ہمارے گرد موجود تو بہت دیر سے تھے مگر اتنی شدت سے کم ہی سامنے آئے تھے, تصور کریں کہ ہمارے رویہ کیا ہونا چاہیے تھا اور ہم نے کیا رویہ اپنایا

یہ کیا کم المیہ ہے کہ ہماری حکومت جس کی بنیادی ذمہ داری ہی ایسے واقعات کو روکنا اور اگر خدا نا خواستہ ایسے واقعات ہو جائیں تو جلد ازجلد ذمہ داروں کا تعین کرنا اور ایسے جرائم کا سدباب کرنا ہے, لیکن حکومت کے ذمہ داران تو اس واقعہ کی سنگینی سے ہی انکاری ہیں اور اس کیس کو عمومی جائداد کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں

جبکہ حزب اختلاف والوں کا المیہ یہ ہے کہ اس واقعہ کو, حکومت کے ساتھ اپنا سکور برابر کرنے کے لیے, ایک سنہری موقعہ جان رہے ہیں اور کسی بھی قسم کی تحقیق سے پہلے ہی اپنا فیصلہ بھی سنا چکے ہیں 

پولیس کا تو ذکر ہی کیا, وہ تو اب خود میں ایک المیہ ہیں, کہ جن پر عوام کی حفاظت اور خدمت کی ذمہ داری ہے, عوام اسی کے شر سے سب سے زیادہ ڈرتی ہے

کیا یہ المیے سے کم ہے کہ ایک پورا گاؤں کئی سال تک ایسی غلیظ حرکات سے آگاہ تھا اور کسے نے آواز بلند نہیں کی, کسی نے آکر کسی اخبار یا ٹی وی پر اس ظلم کے خلاف دھائی نہیں دی, کیسے سب برادشت کرتے رہے اور وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ

اور سب سے بڑا المیہ ہمارے میڈیا والوں کا رویہ تھا, جن کر درمیان دوڑ لگی تھی کہ کتنے زیادہ سے زیادہ بچوں کے ساتھ یہ ہولناک سانحہ ہوا اور کس کے پاس سب سے زیادہ ویڈیوز ہیں,  پھر سے یہ ہولناک سچائی سامنے آئی کہ 'سب سے پہلے' کی دوڑ میں اخلاقیات اور قوائد انتہائی غیر ضروری ہیں, ایک عدد کیمرے اور مائک کے ساتھ آپ جس کو اور جب چاہیں دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں, چاہے وہ اس سانحے سے گزرا ہوا بچہ ہی کیوں نہ ہو, جو دل چاہے بول سکتے ہیں, چاہے اس کا تعلق حقیقت سے کہیں دور کا بھی نہ ہو

دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ ہمارے حال پہ رحم کرے کہ جن حالات تک ہم پہنچ چکے ہیں, قدرت شائد ایسا بندوبست کرے کہ ہمارے پاس اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کا موقع بھی نہ رہے, آخر کب تک ہم اپنی کوتاہیوں اور خرابیوں سے پہلو تہی کرتے رہیں گے, کبھی اور کہیں سے تو شروعات کرنی ہوگی, سچائی کا سامنا پوری ایمانداری سے کرنا ہوگا

No comments:

Post a Comment