Monday, June 3, 2013

جماعت المومنین

خواہش کو خبر بنانے والے، کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، اس خبر (خواہش ) کو سچ ثابت کرنے کے لئے۔ جب انسان اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے تو پھر سچ، جھوٹ، اخلاقیات، تہزیب ۔۔۔ جیسی چیزیں بے معنی ہو جاتی ہیں اور مقصد صرف اپنی بات (خواہش)‌ کو سچ ثابت کرنا رہ جاتا ہے۔

 
یہ وہ نتیجہ تھا جو میں نے اور میرے ایک دوست نے اخذ کیا تھا، جب ہم لوگ پاکستان کی حالیہ سیاست پر گفتگو کررہے تھے۔
 
پاکستان کے 11 مئی 2013 کے الیکشن سے پہلے ہم کچھ دوستوں‌کی رائے تھی کہ اِن انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو جیتنا چاہئے جبکہ زیادہ تر دوست تحریکِ انصاف کے زبردست حامی تھے۔ میرے فیس بک کے بھی تقریباٌ سب دوست بھی 'انصافیئے' ہی تھے، جو کہ انتیہائی جذباتی اور پرجوش تھے تحریکِ انصاف کی کامیابی کے لیے، حتیٰ کہ کچھ دوستوں‌ نے عملی طور پر تبدیلی رضاکار بن کر سیاسی جدوجہد میں‌حصہ لیا، جو بذاتِ خود ایک زبردست اور مثبت تبدیلی تھی۔
ایک چیز جس کی کمی، الیکشن سے پہلے اور بعد بھی نظر آ رہی ہے، وہ تحریکِ انصاف کے رہنماؤں اور (اِسی وجہ سے) بہت زیادہ اُس کے حامیوں میں، وہ ہے 'تنقیدی جائزہ' نہ لینے کی روش۔
 
جس قسم کی تحریکِ انصاف کی اُٹھان تھی اور جس طرح لوگ، خاص طور پر نوجوان، عمران خان کی طرف متوجہ ہوئے تھے، چاہییے تو یہ تھا کہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم کو لوگوں‌ میں‌سیاسی تحریک پیدا کرنے ساتھ، بڑے پیمانے پر اخلاقی تربیت کے لیئے بھی استعمال کیا جاتا، لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ افسوس کے کچھ خاص طبقات میں سیاسی تحرک پیدا تو کیا جا سکا، لیکن جس طرح تحریک انصاف کے لوگوں‌نے ہر تنقیدی یا مخالف آواز پر ردِ عمل کیا، کچھ لوگ تو ننگی گالیوں‌ پر آجاتے اور جب اس جانب متوجہ کیا جاتا، تو دلیل یہ دی جاتی کہ فلاں‌ پارٹی کے لوگ بھی تو ایسا کہتے ہیں، یعنی دوسروں‌ کی غلطی 'انصاف' کی دلیل ٹھری۔

زیادہ دلچسپ صورتحال سوشل میڈیا پر نظر آ رہی تھی، جہاں‌ پہلے ہی کچھ بھی کہنے کی آزادی ہے، بغیر کسی ثبوت کے اور کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں، تو اپنے 'انصافی' بھایئوں‌نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا، ٹھیک ٹھاک پوسٹ لکھیں اور اس سے بھی زیادہ شئرنگ کی، مختلف صفحات کی پوسٹیں جن میں سے زیادہ تر نفرت، بغض اور لعنت ملامت سے بھری ہوتی تھیں، میرے کئی دوستوں‌نے مکمل جھوٹ پر مبنی شئرنگ کیں، بغیر کسی حوالہ اور ثبوت کے الزامات، مخالفین کے نام بگاڑنا تو ایک معمول کا کام بن گیا، جس پر کسی قسم کی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی گئ کبھی۔ کئی کالم نگار، صحافی اور اینکرز 'انصاف' کا نشانہ بنتے رہے، اختلاف کرنے کی جرت کرنے پر۔ ہر تنقید کرنیوالا غیر محبِ وطن، جاہل اور گالیوں‌کا حقدار ٹھرا۔ جب قیادت خود دوسروں‌کو 'اؤے' کہ کر پکارے، نام بگاڑے اور بڑکیں‌مارے گی تو پیروکاروں کا یہی حال ہوگا نا۔۔۔۔

ایسا بھی نیہں کہ باقی سب جماعتیں دودھ کی دھلی ہیں، تحریکِ انصاف کی طرح ہر جماعت کی اپنی خوبیاں اور اپنی خامیاں‌ہیں جو پہلے سے ہی لوگوں پر آشکار ہیں، مسئلہ تب ہوا جب تحریکِ انصاف نے خود کو مکمل اچھائی اور صرف ایک دوسری جماعت کو مکمل برائی ثابت کرنے کی کوشش کی، بہت لوگوں‌ نے سمجھانے کی کوشش کی کہ صرف ایک جماعت کے پیچھے مت بھاگیں اور صرف اسی جماعت پر سارا ملبہ نہ ڈالیں، جس جس جماعت کا جہاں‌جہاں قصور ہے، اسی مناسبت سے حدف تنقید بنائیں اور اسی حساب سے لوگوں‌کو نئی راہ دکھلائیں، لیکن 'جنون' نے ایک نہ سنی اور بری طرح سے اسی صوبے سے مسترد ٹھرا جہاں‌سب سے زیادہ 'محنت' کی تھی اور اب شامت اس صوبے کی آگئی ہے، اب یہاں کے عوام 'قیمے والے نان' کی خاطر بکاؤ مال ٹھہرائے جا رہے ہیں، جاہل اور گنوار کا ٹھپہ لگایا جا رہا ہے، شائید فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ ایک کروڑ ووٹر جاہل ہے، جس نے مخالف جماعت کو ووٹ دیئے یا چند مایوس 'انصافیئے'۔۔۔۔۔۔ عمران خان ہمارا قومی ہیرو تو ہے، لیکن سیاسی حرکیات سے نابلد، چونکہ تحریک کا زیادہ زور امیروں اور اپر مڈل کلاس میں تھا تو انیہں علاقوں سے زیادہ ووٹ مل گئے، تو شور کیسا، کیا کوئی قانونی راستہ نہیں ہے  ؟ یا بقول کچھ 'انصافی' دوستوں کے 'سب' ہمارے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔

تضادات کی لمبی کہانی ہے، جسے جب شامل بحث کرنے کی کوشش کی جائے تو بات کا رخ ہی موڑ دیا جاتا ہے، کئی دفعہ کوشش کی بنیادی باتیں پوچھنے کی، مگر جواب ندارد، انتخابات جیتنے کی حکمتِ عملی پر بات کرنے کی کوشش کی تو جواب بڑے بڑے نعرے، 'قابلِ انتخاب' لوگوں کو لینے والے یو ٹرن کی بات کی تو دوسری جماعتوں‌کی برائیاں شروع، تحریک کے لوگوں اور پارٹی انتخابات میں کرپشن کی بات کرو تو کوئی جواب نیہں، دوسروں‌کے ہر اچھے کام میں کیڑے اور اپنے ہر تضاد کی توجیہ، جیسے

- دوسروں کو بزدلی کے طعنے مارے اور جب اپنے لیڈر کو بلٹ پروف شیشے کے پیچھے دیکھا تو دلیل سیکیورٹی خطرات
- دوسروں کا مذاق اڑایا جس بات پہ، اپنا لیڈر اسی بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے بال بال بچا (اللہ کا شکر اسے کچھ نہیں ہوا)
- اپنی جماعت میں ہر آنے والا بہترین اور دورسری جماعتوں میں جائیں تو لوٹے
- بہت دفعہ دہرایا گیا دعویٰ کی کسی حکومتی جماعت سے اتحاد ناممکن اور اپنا ہی وائس چیرمین حکومتی جماعتوں کا مشترکہ امیدوار اور اب پنجاب اسمبلی کا سپیکر کا امیدوار ق لیگ اور تحریک انصاف کا مشترکہ
- باتیں سٹیٹس کو کے خاتمے کی اور اسی سٹیٹس کو کے ایک ارب پتی نمائیندے کے ذاتی جہاز پر قیادت کے سفر

اب آخر میں اصل بات، جو اکثر دوست مجھ سے اور ان سب سے پوچھتے ہیں جو تحریک انصاف کی حمائیت نیہں کرتے یا تنقید کرتے ہیں ویسے تو ان کی محبت ہے جو اب تک برداشت کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ اصل میں جب تحریک انصاف بنی اور جب دوبارہ کچھ سال پہلے دوبارہ حقیقی اٹھان پکڑی تو بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میری توجہ بھی اس جماعت کی طرف ہوئی، لیکن اس دفعہ معاملہ مختلف تھا سولہ سال پہلے والی تحریک انصاف سے، اب لوگ بہت تنگ تھے موجودہ پی پی پی حکومت سے خاص طور سے، خود تحریک انصاف کے پرانے کارکنوں نے بہت محنت سے توجہ حاصل کی تھی پڑھے لکھے لوگوں کی، سوشل میڈیا سے اور عمران خان نے الیکٹرونک میڈیا سے۔ لیکن جیسے جیسے تحریک کی مقبولیت بڑھی، اصول غائب ہوتے گئے، اب ہر اس شخص کے لیے دروازے کھل گئے جس کی واحد قابلیت 'قابل انتخاب' ہونا تھی، سارا زور صرف ایک جماعت کی طرف ہو گیا، جو نسبتاً بہتر تھی باقیوں سے، ساری تحریک کا زور صرف ایک صوبے پر لگا دیا گیا، خواب فروشی اپنے عروج کو ایسی پہنچی کہ معقول بات کرنا مشکل ہو گیا، بڑھکیں بڑھتی گیئں اور حکمت عملی گم ہوتی گئی، ایک بہت بڑی وجہ ایم کیو ایم کے بارے میں 'خاص' خاموشی اور پی پی پی کے بارے میں 'نرم' تنقید تھی، سوشل میڈیا نے سب سے زیادہ متنفر کیا جہاں جھوٹ اور بغیر ثبوت الزامات کی ایسی بھرمار تھی کی خدا پناہ۔

اب بھی گذارش ہے کہ بجائے الزامات کے سہارے جینے کے، بلوغت کا مظاہرہ کریں، اپنی ناکامی کے اسباب کا بہتر انداز میں تجزیہ کریں اور اپنی حکمت عملی کا طائرانہ جائزہ لیں- جذباتیئت سے باہر نکل کر زمینی حقائق کو سجھ کر چلیں کہ نعرے مارنے اور خواب دکھانے آسان اور ان کا عملی مظاہرہ مشکل ہوتا ہے، خواب زرور دیکھیں لیکن خوابوں میں رہنا چھوڑ کر دنیا میں رہنا سیکھیں،"جماعت المومنین" بننے کی کوشش نہ کریں

 اللہ ہم سب کا حامی و ںاصر ہو۔

No comments:

Post a Comment